‘‘ میٹرک میں ناکامی کے باوجود علم کا سمندر ’’


جناب اکبر شاہ خلجی ایک ایسی شخصیت ہیں جس کو بیان کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ روایتی تعلیم حاصل نہ کرنے کے باوجود گہرے مشاہدے اور انتھک محنت سے ایک ایسا مقام حاصل کر چکے ہیں کہ وہ پاکستان میں حماد صافی جیسے ینگ موٹیوشنل سپیکر کے اُستاد اور رہنما کی حثیت سے اپنے آپ کو منوا چکے ہیں۔
میٹرک میں ناکامی کے بعد سنگا پور چلے گئے جہاں وہ کرکٹ کے ساتھ ساتھ زریعہ معاش کے لیے مختلف نوکریاں کرتے رہے۔ اپنی خداداد صلاحیتوں اور گہرے مشاہدے کی وجہ سے بچوں کی تربیت اور خود اعتمادی کے حوالے سے سنگا پور کے نظام تعلیم کا بغور جائزہ لیا۔ اور پاکستان واپس کر اس تجربے بھر پور فائدہ اُٹھایا اور اپنے بھائی کے ادارے میں چھوٹے بچوں کی کردار سازی اور پبلک سپیکنگ کے حوالے سے کام کرنا شروع کر دیا۔ بہت کم عرصے میں سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی۔ صبعون ننگرہاری اور حماد صافی کو نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے ملکوں میں ننھے پروفیسر کے طور پر مشہور کرا دیا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔
بے پناہ صلاحیتوں کے حامل ہونے کے باوجود انتہائی ملنسار، عاجزی سے سرشار اور ہر وقت علم بانٹنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ میری دو سال پہلے ملاقات ہوئی جب وہ عبداللہ ہاوس میں حماد صافی کے ساتھ تشریف لائے تھے۔ آئے تو تھوڑی دیر کے لیے تھے لیکن اپنے علم اور اپنی استاد ہونے کی طاقتور صلاحیت کے ہاتھوں مجبور بہت دیر تک بیٹھے رہے اور اپنے تجربے سے روشناس کرواتے رہے۔ اس ملاقات کے بعد کئی ملاقاتیں رہیں۔ گرم سرد حالات کے باوجو د رکھ رکھاو، مہمان نوازی۔ مخلص پن اور علامہ اقبالؒ کے فلسفہ خودی کے علمبردار ہیں۔کل کی ملاقات میں میں نے اکبر شاہ خلجی صاحب کو ایک مختلف انسان پایا جو مراقبہ ، تخیل اور زہنی سائنس کے ماہر طور پر نظر آئے۔ کرونا وائرس لوگوں کی شخصیت پر مختلف انداز میں اثر انداز ہوا ہے۔ کئی لوگ ڈیپریشن اور مشکلات کا شکار ہوئے ہیں اور بہت کم لوگ اس عرصے کو بہترین استعمال کر کے خود شناسی اور خود آگاہی کی منازل طے کر گئے۔ ایسے ہی ناپید لوگوں میں جناب اکبر شاہ خلجی صاحب ہیں جنہوں نے کرونا کے دوران اپنی شخصیت میں نکھار لے آئے ہیں۔ جو علم اور تخیل کی طاقت اُنہوں نے حاصل کی ہے بہت جلد اس کے اثرات نظر آنا شروع ہوجائیں گئے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا کے کہ وہ خلجی صاحب کو صحت دے تاکہ وہ ملک و قوم اور خاص کر بچوں کے لیے اپنی خدمات کو جاری رکھ سکیں۔ عبداللہ ثمین

ہجوم سے ہٹ کر چلنے میں ہی کامیابی کا راز چھپا ہے۔ عبداللہ ثمین

میں جب بھی کسی پروگرام میں جاتا ہوں تو سب سے زیادہ سوال جو مجھ سے پوچھا جاتا ہے وہ ہے کامیابی کا حصول کیسے ممکن ہے۔ اس کے لیے بڑے بڑے کام کرنے پڑتے ہیں۔ یہ تو بس چند خوش قسمت لوگوں کو ہی مل سکتی ہے۔ مجھے ایک آرٹیکل ملا جو بہت ہی خوبصورت ہے۔ اس میں کامیابی کا راز چھپا ہے۔ اگر ہم اپنی اپنی پہنچ میں ہر کام کے اندر ایسی تبدیلیاں لے آئیں تو کامیابی کا حصول نہایت ہی آسان ہو جاے۔

میں ٹیکسی لینے سٹینڈ کی طرف چلا۔ جب میرے پاس ایک ٹیکسی رکی تو مجھے جو چیز انوکھی لگی وہ گاڑی کی چمک دمک تھی۔ اس کی پالش دور سے جگمگا رہی تھی۔ ٹیکسی سے ایک سمارٹ ڈرائیور تیزی سے نکلا۔ اس نے سفید شرٹ اور سیاہ پتلون پہنی ہوئی تھی جو کہ تازہ تازہ استری شدہ لگ رہی تھی۔ اس نے صفائی سے سیاہ ٹائی بھی باندھی ہوئی تھی۔ وہ ٹیکسی کی دوسری طرف آیا اور میرے لئے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا۔
اس نے ایک خوبصورت کارڈ میرے ہاتھ میں تھمایا اور کہا ’سر جب تک میں آپ کا سامان ڈگی میں رکھوں، آپ میرا مشن سٹیٹ منٹ پڑھ لیں۔ میں نے آنکھیں موچ لیں۔ یہ کیا ہے؟‘ میرا نام سائیں ہے، آپ کا ڈرائیور۔ میرا مشن ہے کہ مسافر کو سب سے مختصر، محفوظ اور سستے رستے سے ان کی منزل تک پہنچاؤں اور ان کو مناسب ماحول فراہم کروں ’۔ میرا دماغ بھک سے اڑ گیا۔ میں نے آس پاس دیکھا تو ٹیکسی کا اندر بھی اتنا ہی صاف تھا جتنا کہ وہ باہر سے جگمگا رہی تھی۔
اس دوران وہ سٹئرنگ ویل پر بیٹھ چکا تھا۔ ’سر آپ کافی یا چائے پینا چاہیں گے۔ آپ کے ساتھ ہی دو تھرماس پڑے ہوئے ہیں جن میں چائے اور کافی موجود ہے‘ ۔ میں نے مذاق میں کہا کہ نہیں میں تو کوئی کولڈ ڈرنک پیوں گا۔ وہ بولا ’سر کوئی مسئلہ نہیں۔ میرے پاس آگے کولر پڑا ہوا ہے۔ اس میں کوک، لسی، پانی اور اورنج جوس ہے۔ آپ کیا لینا چاہیں گے؟‘ میں نے لسی کا مطالبہ کیا اور اس نے آگے سے ڈبہ پکڑا دیا۔ میں نے ابھی اسے منہ بھی نہیں لگایا تھا کہ اس نے کہا ’سر اگر آپ کچھ پڑھنا چاہیں تو میرے پاس اردو اور انگریزی کے اخبار موجود ہیں‘ ۔
اگلے سگنل پر گاڑی رکی تو سائیں نے ایک اور کارڈ مجھے پکڑا دیا کہ اس میں وہ تمام ایف ایم سٹیشن ہیں جو میری گاڑی کے ریڈیو پر لگ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں وہ تمام البم بھی ہیں جن کی سی ڈی میرے پاس ہے۔ اگر آپ کو موسیقی سے شوق ہے تو میں لگا سکتا ہوں۔ اور جیسے یہ سب کچھ کافی نہیں تھا، اس نے کہا کہ ’سر میں نے ائر کنڈیشنر لگا دیا ہے۔ آپ بتائیے گا کہ ٹمپریچر زیادہ یا کم ہو تو آپ کی مرضی کے مطابق کردوں‘ ۔
اس کے ساتھ ہی اس نے رستے کے بارے میں بتا دیا کہ اس وقت کس رستے پر سے وہ گزرنے کا ارادہ رکھتا ہے کہ اس وقت وہاں رش نہیں ہوتا۔ پھر بڑی پتے کی بات پوچھی ’سر اگر آپ چاہیں تو رستے سے گزرتے ہوئے میں آپ کو اس علاقے کے بارے میں بھی بتا سکتا ہوں۔ اور اگر آپ چاہیں تو آپ اپنی سوچوں میں گم رہ سکتے ہیں‘ وہ شیشے میں دیکھ کر مسکرایا۔
میں نے پوچھا ’سائیں، کیا تم ہمیشہ سے ایسے ہی ٹیکسی چلاتے رہے ہو؟‘ اس کے چہرے پر پھر سے مسکراہٹ آئی۔ ’نہیں سر، یہ کچھ دو سال سے میں نے ایسا شروع کیا ہے۔ اس سے پانچ سال قبل میں بھی اسی طرح کڑھتا تھا جیسے کہ دوسرے ٹیکسی والے کڑھتے ہیں۔ میں بھی اپنا سارا وقت شکایتیں کرتے گزارا کرتا تھا۔ پھر میں نے ایک دن کسی سے سنا کہ سوچ کی طاقت کیا ہوتی ہے۔ یہ سوچ کی طاقت ہوتی ہے کہ آپ بطخ بننا پسند کریں گے کہ عقاب۔ اگر آپ گھر سے مسائل کی توقع کرکے نکلیں گے تو آپ کا سارا دن برا ہی گزرے گا۔ بطخ کی طرح ہر وقت کی ٹیں ٹیں سے کوئی فائدہ نہیں، عقاب کی طرح بلندی پر اڑو تو سارے جہاں سے مختلف لگو گے۔ یہ بات میرے دماغ کو تیر کی طرح لگی اور اس نے میری زندگی بدل دی۔
میں نے سوچا یہ تو میری زندگی ہے۔ میں ہر وقت شکایتوں کا انبار لئے ہوتا تھا اور بطخ کی طرح سے ٹیں ٹیں کرتا رہتا تھا۔ بس میں نے عقاب بننے کا فیصلہ کیا۔ میں نے ارد گرد دیکھا تو تمام ٹیکسیاں گندی دیکھیں۔ ان کے ڈرائیور گندے کپڑوں میں ملبوس ہوتے تھے۔ ہر وقت شکایتیں کرتے رہتے تھے اور مسافروں کے ساتھ جھگڑتے رہتے تھے۔ ان کے مسافر بھی ان سے بے زار ہوتے تھے۔ کوئی بھی خوش نہیں ہوتا تھا۔ بس میں نے خود کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے میں نے چند تبدیلیاں کیں۔ گاڑی صاف رکھنی شروع کی اور اپنے لباس پر توجہ دی۔ جب گاہکوں کی طرف سے حوصلہ افزائی ملی تو میں نے مزید بہتری کی۔ اور اب بھی بہتری کی تلاش ہے۔‘
میں نے اپنی دلچسپی کے لئے پوچھا کہ کیا اس سے تمہاری آمدنی پر کوئی فرق پڑا
“سر بڑا فرق پڑا۔ پہلے سال تو میری انکم ڈبل ہوگئی اور اس سال لگتا ہے چار گنا بڑھ جائے گی۔ اب میرے گاہک مجھے فون پر بک کرتے ہیں یا ایس ایم ایس کرکے وقت طے کرلیتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اب مجھے ایک اور ٹیکسی خریدنی پڑے گی اور اپنے جیسے کسی بندے کو اس پر لگانا پڑے گا۔‘
یہ سائیں تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اسے بطخ نہیں بننا بلکہ عقاب بننا ہے۔

تو کیا خیال ہے ہمیں کس کا انتخاب کرنا ہے ہجوم کا یا عقاب کا ۔ اگر آج سے یہ عہد اپنے آپ سے کر لیں تو صرف ایک سال میں ہماری زندگی وہ تبدیلیاں آئیں گی جس کا گمان بھی کرنا مشکل ہے۔

صبح جلدی اُٹھنے کے لازوال فائدے۔ عبداللہ ثمین

زمانہ 1850ء کے لگ بھگ کا ہے مقام دلی ہے وقت صبح کے ساڑھے تین بجے کا ہے، سول لائن میں بگل بج اٹھا ہے پچاس سالہ کپتان رابرٹ اور اٹھارہ سالہ لیفٹیننٹ ہینری دونوں ڈرل کیلئے جاگ گئے ہیں ۔ دو گھنٹے بعد طلوع آفتاب کے وقت انگریز سویلین بھی بیدار ہو کر ورزش کر رہے ہیں۔ انگریز عورتیں گھوڑ سواری کو نکل گئی ہیں ۔ سات بجے انگریز مجسٹریٹ دفتروں میں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سفیر سر تھامس مٹکاف دوپہر تک کام کا اکثر حصہ ختم کر چکا ہے۔ کوتوالی اور شاہی دربار کے خطوں کا جواب دیا جا چکا ہے۔ بہادر شاہ ظفر کے تازہ ترین حالات کا تجزیہ آگرہ اور کلکتہ بھیج دیا گیا ہے۔ دن کے ایک بجے سرمٹکاف بگھی پر سوار ہو کر وقفہ کرنے کیلئے گھر کی طرف چل پڑا ہے۔ ۔

یہ ہے وہ وقت جب لال قلعہ کے شاہی محل میں ”صبح” کی چہل پہل شروع ہو رہی ہے ظل الہی کے محل میں صبح صادق کے وقت مشاعرہ ختم ہوا تھا، جس کے بعد ظلِ الٰہی اور عمائدین خواب گاہوں کو گئے تھے اب کنیزیں نقرئی برتن میں ظلِ الٰہی کا منہ ہاتھ دھلا رہی ہیں اور تولیہ بردار ماہ جبینیں چہرہ، پائوں اور شاہی ناک صاف کر رہی ہیں اور حکیم چمن لال شاہی پائے مبارک کے تلووں پر روغن زیتون مل رہا ہے،، !
اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ لال قلعہ میں ناشتے کا وقت اور دہلی کے برطانوی حصے میں دوپہر کے لنچ کا وقت ایک ہی تھا ۔ ۔ ۔ ۔ دو ہزار سے زائد شہزادوں کا بٹیربازی، مرغ بازی، کبوتر بازی اور مینڈھوں کی لڑائی کا وقت بھی وہی تھا ،،*

اب ایک سو سال یا ڈیڑھ سو سال پیچھے چلتے ہیں

برطانیہ سے نوجوان انگریز کلکتہ، ہگلی اور مدراس کی بندرگاہوں پر اترتے ہیں برسات کا موسم ہے مچھر ہیں اور پانی ہے ۔ ملیریا سے اوسط دو انگریز روزانہ مرتے ہیں لیکن ایک شخص بھی اس ”مرگ آباد” سے واپس نہیں جاتا

لارڈ کلائیو پہرول گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہتا ہے

اب 2019 میں آتے ہیں پچانوے فیصد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا سات بجے تک کھا لیتے ہیں آٹھ بجے تک بستر میں ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں بڑے سے بڑا ڈاکٹر چھ بجے صبح ہسپتال میں موجود ہوتا ہے ۔ پورے یورپ ، امریکہ ،جاپان آسٹریلیا اورسنگاپور میں کوئی دفتر، کارخانہ، ادارہ، ہسپتال ایسا نہیں جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہے تو لوگ ساڑھے نو بجے آئیں !

آجکل چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن چکی ہے پوری قوم صبح چھ سے سات بجے ناشتہ اور دوپہر ساڑھے گیارہ بجے لنچ اور شام سات بجے تک ڈنر کر چکی ہوتی ہے

اللہ کی سنت کسی کیلئے نہیں بدلتی اسکا کوئی رشتہ دار نہیں نہ اس نے کسی کو جنا، نہ کسی نے اس کو جنا ، جو محنت کریگا تو وہ کامیاب ہوگا، عیسائی ورکر تھامسن میٹکاف سات بجے دفتر پہنچ جائیگا، تو دن کے ایک بجے تولیہ بردار کنیزوں سے چہرہ صاف کروانے والا، بہادر شاہ ظفر مسلمان بادشاہ ہی کیوں نہ ہو، ناکام ہی رہے گا

بدر میں فرشتے نصرت کیلئے اتارے گئے تھے لیکن اس سے پہلے مسلمان پانی کے چشموں پر قبضہ کر چکے تھے جو آسان کام نہیں تھا اور خدا کے محبوبؐ رات بھر یا تو پالیسی بناتے رہے یا سجدے میں پڑے رہے تھے ! حیرت ہے ان حاطب اللیل دانش وروں پر جو یہ کہہ کر قوم کو مزید افیون کھلا رہے ہیں کہ پاکستان ستائیسویں رمضان کو بنا تھا کوئی اسکا بال بیکا نہیں کرسکتا کیا سلطنتِ خدا داد پاکستان اللہ کی رشتہ دار تھی اور کیا سلطنت خداداد میسور ، اللہ کی دشمن تھی۔۔ اسلام آباد مرکزی حکومت کے دفاتر ہیں یا صوبوں کے دفاتر یا نیم سرکاری ادارے،، ہر جگہ لال قلعہ کی طرز زندگی کا دور دورہ ہے،، کتنے وزیر، کتنے سیکرٹری ، کتنے انجینئر، کتنے ڈاکٹر، کتنے پولیس افسر، کتنے ڈی سی او کتنے کلرک ، آٹھ بجے ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں؟ کیا اس قوم کو تباہ وبرباد ہونے سے دنیا کی کوئی قوم بچا سکتی ہے۔ جس میں کسی کو تو اس لئے مسند پر نہیں بٹھایا جاسکتا کہ وہ دوپہر سے پہلے اٹھتا ہی نہیں، اورکوئی اس پر فخر کرتا ہے کہ وہ دوپہر کو اٹھتا ہے لیکن سہ پہر تک ریموٹ کنٹرول کھلونوں سے دل بہلاتا ہے ، جبکہ کچھ کو اس بات پر فخر ہے کہ وہ دوپہر کے تین بجے اٹھتے ہیں،، کیا اس معاشرے کی اخلاقی پستی کی کوئی حد باقی ہے.

جو بھی کام آپ دوپہر کو زوال کے وقت شروع کریں گے وہ زوال ہی کی طرف جائے گا. کبھی بھی اس میں برکت اور ترقی نہیں ہو گی.

اور یہ مت سوچا کریں کے میں صبح صبح اٹھ کر کام پر جاؤں گا ، تو اس وقت لوگ سو رہے ہونگے میرے پاس گاہک کدھر سے آئے گا. گاھک اور رزق اللہ رب العزت بھیجتے ہے.

سیاحت کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے۔ عبداللہ ثمین

پاکستان کو اللہ نے بے شمار خوبصورت پہاڑوں، میدانوں اور وادیوں سے نوازا ہے۔ اگر حالات ٹھیک ہوں، امن ہو تو نہ صرف ملکی بلکہ لاکھوں غیر ملکی سیاح بھی پاکستان کے ان علاقوں کیس یر کو آئیں اور اس کے نتیجہ میں کثیر زرمبادلہ بھی حاصل ہو۔

کمراٹ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے بالائی دیر ضلع کی ایک وادی ہے۔ یہ خیبر پختونخوا کی ایک قدرتی وادیوں میں سے ایک ہے اور مسافروں کے لئے ایک خوبصورت مقام ہے۔ ہر گرمی کے موسم میں ملک کے مختلف علاقوں سے ہزاروں سیاح وادی قمرت کا رخ کرتے ہیں اور ہرے اور ٹھنڈے موسم سے لطف اٹھاتے ہیں

پچھلے ہفتے میں ایک ٹریننگ کانفرنس کے سلسلے میں صوبہ کے پی کے کی خوبصورت وادی کمراٹ گیا تو میں اس قدر قدرتی مناظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایسے لگتا جیسے اللہ نے جنت سے کوئی ٹکڑا زمین پر بھیج دیا ہو۔ میں ان خوبصورت مناظر کے حسن میں کتنی دیر کھویا رہا۔

چار دن کی کانفرنس میں جہاں بہت سی نئی باتیں سیکھنے اور سکھانے کو ملی وہاں بار بار دل میں یہ خیال آتا رہا کہ ان علاقوں کی ترقی سے اور کثیر تعداد میں سیاحوں کے آنے سے اس علاقے کے لوگوں کسی بھی بڑے شہر میں جا کر مزدوری کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اور لوگ اپنے خاندانوں کے ساتھ کاروبار کر سکیں گئے۔

بحثیت قوم ہمیں ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ صرف علم ہونے یا تعلیم ہونے کا کوئی فائدہ نہیں اس پر عمل بھی ضروری ہے۔ اس لیے آج سے ہی تمام سیاحت کو شوقین افراد اور مقامی انتظامیہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ صفائی کا معیار بہت اچھا رکھیں اور ساتھ ساتھ ہی قدرتی ماحول کو قدرتی رکھنے کی طرف پوری توجہ دیں۔

یہ ٹرپ اس لحاظ سے بھی بڑا منفرد تھا کہ سیرو سیاحت کے ساتھ ساتھ سیکھنے اور سکھانے کا عمل بھی بڑے زور وشور سے جاری رہا۔ مجھ سمیت پانچ سپیکر تھے۔ جن میں سب سے کم عمر اور کم تجربہ کار تھا۔ مجھے نوجوانوں کو بغیر پیسوں کے کامیاب کاروبار کا اغاز اور موزوں لیڈرشپ پر بولنے کے لیے کہا گیا۔ میں نے حالیہ کرونا ٹائم میں اپنے سٹارٹ کردا کاروبار ڈیکوریا گروپ کے بارے اپنا تجربہ بیان کیا۔ جسے تمام شرکا نے بہت پسند کیا اور حوصلہ افزائی کی۔ اللہ کا شکر کہ جب آخر میں بیسٹ سپیکر کے لیے شرکا سے ووٹنگ کروائی تو مجے بیسٹ سپیکر کا سرٹیفکیٹ دیا گیا۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ مجھے ہمت دے کہ اپنی قوم اور ملک پاکستان کے لیے کوئی اچھی خدمت پیش کر سکوں۔

کیا واقعی ہم بحثیت مجموعی انحطاط پزیری کا شکار ہو گئے ہیں؟ عبداللہ ثمین

موٹروے زیادتی کیس نے ایک طرف پرانے سارے زخم تازہ کر دیے ہیں تو دوسری طرف اس کیس پر پولیس افسران کی پیشہ ورانہ تربیت اور انسانی ہمدردی پر بھی بے شمار سوال اٹھا دیے ہیں۔

کیا ایسے وقت میں جب پورا ملک اداس اور مایوسیت کا شکار ہے کسی بھی پولیس افسر یا نام نہاد مجاہد کو ایسے بیانات دینے چاہیے۔ یا آگے بڑھ کر کھلے دل سے اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں تلاش کرنی چاہے اور اس واقہ کی زمہ داری لینی چاہیے اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑھ رہا ہے کہ حکومت جو کہ ریاست مدینہ بنانے کے وعدے پر الیکش جیت کر آئی تھی۔ ریاست مدینہ تو کیا بناتی اُلٹا ہر بندہ عدم تحظ کا شکا بن گیا ہے۔ فوری طور پر ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو اور خاص کر خواتین و بچیوں کے اس صدمے سے نکالا جائے ورنہ وہ بہت سے نفسیاتی مسائل کا شکارہو جائین گئیں اور ہماری اگلی نسل کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
جہاں تک معلوم ہوا ہے خاتون اور اس کی فیملی فرانس میں رہتے تھے۔ ان کے پاس وہاں کی نیشنیلٹی بھی تھی۔ خاتون کے ایک رشتہ دار کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو لے کر پاکستان آئی تھی کہ بچے یہیں پڑھیں اور یہیں کے اسلامی کلچر کے مطابق پلیں بڑھیں۔ایک ایجنسی کے دوست کا کہنا ہے کہ ہم لوگ جس وقت جائے وقوعہ پر پہنچے خاتون پولیس والوں کے آگے گڑگڑا رہی تھی کہ مجھے گولی مار دو۔میں زندہ نہیں رہنا چاہتی۔ وہ ان لوگوں کو خدا کے واسطے دے رہی تھی کہ مجھے گولی مار دو۔ انہیں ان کے بچوں کا واسطہ دے رہی تھی کہ مجھے مار دو۔ اس کے اس مطالبے پر عمل نہیں ہوا تو اس نے دوسرا مطالبہ سامنے رکھا۔ خاتون کا کہنا تھا کہ یہاں موجود سب لوگ حلف دیں کہ اس واقعے کے بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گے۔ اس کے خاندان اور کسی بھی اور شخص کو اس وقوعے کے بارے میں پتہ نہ چلے۔وہ مقدمہ درج نہیں کرانا چاہتی۔ یہاں موجود ایک ایس پی صاحب نے خاتون کو یقین دہانی کرائی کہ یہ وقوعہ بالکل بھی ہائی لائٹ نہیں ہو گا۔خاتون کی حالت انتہائی خراب تھی۔ عموما فارنزک سائنس ایجنسی والے ایسے مواقع پر وکٹم کی تصاویر لیتے ہیں۔ لیکن خاتون کی حالت ایسی افسوسناک اور دردناک تھی کہ کسی کی ہمت نہیں پڑی کہ وہ اسے اس کام کیلئے کہہ سکے یا تصاویر اتار سکے۔ وہ ہاتھ جوڑ کر ان کی منتیں کر رہی تھی کہ مجھے قتل کر دو۔ خاتون شاید اسے فرانس سمجھ کر ہی رات کے اس پہر بچوں کو لے کر گوجرانولہ جانے کیلئے نکلی تھی کہ کونسا زیادہ سفر ہے۔ ایک گھنٹے میں گوجرانوالہ پہنچ جائیں گے۔ لیکن اسے نہیں پتہ تھا کہ یہ پاکستان ہے۔ یہ مسلمانوں کا ملک ہے۔موٹر وے پہ بے بس عورت کا ریپ وہ بھی اُس کے بچوں کے سامنے پاکستانی معاشرہ وحشی درندوں کا روپ اختیار کر چکا ہے۔ یہاں انسانیت کا جنازہ آئے روز دھوم دھام سے اٹھتا ہے

 بچوں کے سامنے ماں کے ساتھ زیادتی کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ کیا ماں اور بچے آیندہ آنکھ ملا سکیں گے باعزت زندگی جی سکیں گئے۔انسانیت ہی نہیں رہی کہ کہیں پر بہن بیٹی محفوظ رہ سکے کیا. گزرتی ہوگی ان پر اللہ ظالموں کو تباہ کرے آمین عمر بھر انکی زندگی میں یہ زیادتی ٹھہری رہے گی.حکومت سے گزارش ہے کہ ملزمان کو سرعام پھانسی دی جائے یا ذرا سی بھی شرم محسوس کرتے ہوئے اپنی کرسیاں چھوڑ کے گھر چلے جائیں۔.

اردو ادب کی معروف شخصیت اشفاق احمد آج بھی لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ عبداللہ ثمین


آج بھی سکون ، امن اور بھائی چارہ کی تلاش میں سرگرادں لوگوں کے لیے بابا اشفاق احمد مشعل راہ ہیں۔ جو اُن کی بے شمار داستانوں، قصوں اور ڈراموں سے سیکھا جا سکتا ہے۔ وہ ایک ایسی یونیورسٹی کا درجہ رکھتے ہیں جو کئی سالوں تک علم کے موتی بکھیرتی رہے گی
میں نے جب بھی اُن کو پڑھا عظیم سچائی، روحانیت اور محبت کی خوشبو پائی۔

اردوادب کی معروف شخصیت اشفاق احمد کو ہم سے بچھڑے 16 برس بیت گئے لیکن اس جہان فانی سے کوچ کرجانے کے اتنے برس بعد ان کی جگہ کوئی نہ لے سکا، جو اپنے قصے، کہانیوں سے علم و حکمت، عقل ودانش اورفکرودانش کے موتی بکھیرسکے۔

اردوادب کی معروف شخصیت اشفاق احمد کو ہم سے بچھڑے 16 برس بیت گئے لیکن اس جہان فانی سے کوچ کرجانے کے اتنے برس بعد ان کی جگہ کوئی نہ لے سکا، جو اپنے قصے، کہانیوں سے علم و حکمت، عقل ودانش اورفکرودانش کے موتی بکھیرسکے۔
آج بھی سکون ، امن اور بھائی چارہ کی تلاش میں سرگرادں لوگوں کے لیے بابا اشفاق احمد مشعل راہ ہیں۔ جو اُن کی بے شمار داستانوں، قصوں اور ڈراموں سے سیکھا جا سکتا ہے۔ وہ ایک ایسی یونیورسٹی کا درجہ رکھتے ہیں جو کئی سالوں تک علم کے موتی بکھیرتی رہے گی
میں نے جب بھی اُن کو پڑھا عظیم سچائی، روحانیت اور محبت کی خوشبو پائی۔

اشفاق احمد 22 اگست 1925ء کو غیر منقسم ہندوستان کے ضلع ہوشیارپور کے گاؤں خان پور میں پیدا ہوئے۔ 1947میں قیام پاکستان کے بعد لاہور منتقل ہوگئے۔ افسانہ اورڈرامہ نگاری کے ساتھ فلسفی ، ادیب اور دانشور ہونے کے علاوہ بہترین براڈ کاسٹرتھے۔
گورنمٹ کالج لاہورسے اردو ادب میں ماسٹرز کرنے کے بعد ریڈیو آزاد کشمیر سے منسلک ہوئے۔ روم یونیورسٹی میں اردو کے استاد بھی رہے اور وطن واپسی کے بعد ادبی مجلہ “داستان گو” جاری کیا۔ 60ء کی دہائی میں ایک فیچر فلم ”دھوپ اور سائے” بھی بنائی۔ ریڈیو پاکستان پر ان کے پروگرام ’’تلقین شاہ‘‘ اور پی ٹی وی پر ڈراما سیرئیل ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ سے انہیں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ نوے کی دہائی میں اشفاق احمد نے سماجی و روحانی موضوعات پر گفتگو کا پروگرام’’زاویہ‘‘ شروع کیا جس نے ان کی شہرت کو ایک نئی جہت عطا کی۔

1953ء میں شائع ہونے والے افسانے ”گڈریا ” نے ان کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے۔ اشفاق احمد کی تصانیف میں ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ ، ’’اجلے پھول‘‘، ’’سفردرسفر‘‘، ’’کھیل کہانی‘‘، ’’طوطا کہانی‘‘ اور زاویہ جیسے بہترین شاہکار شامل ہیں۔

اشفاق احمد نے بانو قدسیہ سے شادی کی، جو خود بھی معروف مصنفہ اور ادیبہ تھیں۔ اشفاق احمد کو صدارتی تمغہ برائے حُسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ اشفاق احمد 7 ستمبر 2004ء کواپنے خالق حقیقی سے جاملے۔