‘‘ میٹرک میں ناکامی کے باوجود علم کا سمندر ’’
جناب اکبر شاہ خلجی ایک ایسی شخصیت ہیں جس کو بیان کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ روایتی تعلیم حاصل نہ کرنے کے باوجود گہرے مشاہدے اور انتھک محنت سے ایک ایسا مقام حاصل کر چکے ہیں کہ وہ پاکستان میں حماد صافی جیسے ینگ موٹیوشنل سپیکر کے اُستاد اور رہنما کی حثیت سے اپنے آپ کو منوا چکے ہیں۔
میٹرک میں ناکامی کے بعد سنگا پور چلے گئے جہاں وہ کرکٹ کے ساتھ ساتھ زریعہ معاش کے لیے مختلف نوکریاں کرتے رہے۔ اپنی خداداد صلاحیتوں اور گہرے مشاہدے کی وجہ سے بچوں کی تربیت اور خود اعتمادی کے حوالے سے سنگا پور کے نظام تعلیم کا بغور جائزہ لیا۔ اور پاکستان واپس کر اس تجربے بھر پور فائدہ اُٹھایا اور اپنے بھائی کے ادارے میں چھوٹے بچوں کی کردار سازی اور پبلک سپیکنگ کے حوالے سے کام کرنا شروع کر دیا۔ بہت کم عرصے میں سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی۔ صبعون ننگرہاری اور حماد صافی کو نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے ملکوں میں ننھے پروفیسر کے طور پر مشہور کرا دیا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔
بے پناہ صلاحیتوں کے حامل ہونے کے باوجود انتہائی ملنسار، عاجزی سے سرشار اور ہر وقت علم بانٹنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ میری دو سال پہلے ملاقات ہوئی جب وہ عبداللہ ہاوس میں حماد صافی کے ساتھ تشریف لائے تھے۔ آئے تو تھوڑی دیر کے لیے تھے لیکن اپنے علم اور اپنی استاد ہونے کی طاقتور صلاحیت کے ہاتھوں مجبور بہت دیر تک بیٹھے رہے اور اپنے تجربے سے روشناس کرواتے رہے۔ اس ملاقات کے بعد کئی ملاقاتیں رہیں۔ گرم سرد حالات کے باوجو د رکھ رکھاو، مہمان نوازی۔ مخلص پن اور علامہ اقبالؒ کے فلسفہ خودی کے علمبردار ہیں۔کل کی ملاقات میں میں نے اکبر شاہ خلجی صاحب کو ایک مختلف انسان پایا جو مراقبہ ، تخیل اور زہنی سائنس کے ماہر طور پر نظر آئے۔ کرونا وائرس لوگوں کی شخصیت پر مختلف انداز میں اثر انداز ہوا ہے۔ کئی لوگ ڈیپریشن اور مشکلات کا شکار ہوئے ہیں اور بہت کم لوگ اس عرصے کو بہترین استعمال کر کے خود شناسی اور خود آگاہی کی منازل طے کر گئے۔ ایسے ہی ناپید لوگوں میں جناب اکبر شاہ خلجی صاحب ہیں جنہوں نے کرونا کے دوران اپنی شخصیت میں نکھار لے آئے ہیں۔ جو علم اور تخیل کی طاقت اُنہوں نے حاصل کی ہے بہت جلد اس کے اثرات نظر آنا شروع ہوجائیں گئے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا کے کہ وہ خلجی صاحب کو صحت دے تاکہ وہ ملک و قوم اور خاص کر بچوں کے لیے اپنی خدمات کو جاری رکھ سکیں۔ عبداللہ ثمین